spot_img

جنوب مشرقی ایشیا کے اسکام سینٹرز پر مزید مالی پابندیاں

جنوب مشرقی ایشیا میں سائبر جرائم پیشہ گروہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور حکومتیں ان کے خلاف دباؤ بڑھا رہی ہیں۔ یہ گروہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور رومانس اسکیموں، انسانی اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں اور ہر سال تقریباً 40 ارب ڈالر کا غیر قانونی منافع کما رہے ہیں۔

امریکہ اور چین کی کارروائیاں

8 ستمبر کو امریکی محکمہ خزانہ کے آفس آف فارن ایسٹس کنٹرول (OFAC) نے برما اور کمبوڈیا میں سرگرم 19 اداروں پر پابندیاں عائد کیں۔ ان میں برما میں “کرن نیشنل آرمی” کے زیرانتظام ایک بڑا اسکام سینٹر اور کمبوڈیا میں کئی مراکز شامل ہیں۔ اس سے پہلے چین نے بھی برما کی سرحد پر موجود کچھ اسکام کمپاؤنڈز پر کارروائی کی اور سینکڑوں شہریوں کو آزاد کرایا۔ اس کے باوجود یہ مجرمانہ نیٹ ورک پھیلتے جا رہے ہیں۔

امریکی محکمہ خزانہ کے انڈر سیکرٹری برائے دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس جان کے ہرلے نے کہا کہ برما، کمبوڈیا، لاؤس اور تھائی لینڈ میں موجود گروہوں نے صرف 2024 میں امریکی شہریوں سے 10 ارب ڈالر سے زیادہ لوٹے۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ کارروائیاں نہ صرف لوگوں کو مالی طور پر نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ ہزاروں افراد کو جبری مشقت کے کیمپوں میں بھی دھکیل دیتی ہیں۔

پہلے کی پابندیاں اور چھاپے

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ OFAC نے اس خطے کے سائبر مجرموں کے ڈھانچے کو نشانہ بنایا ہے۔ مئی میں فلپائن کی کمپنی فن نل ٹیکنالوجی انک. اور اس کے منتظم، ایک چینی شہری لیو لزھی پر بھی پابندی لگائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ وہ سائبر مجرموں کو آئی پی ایڈریس فراہم کرتے تھے اور ان کی اسکیموں نے 200 ملین ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچایا۔

جولائی میں کمبوڈیا پولیس نے کئی اسکام سینٹرز پر چھاپے مارے اور ایک ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا۔ ان میں زیادہ تر غیر ملکی شہری تھے جن میں انڈونیشیا، ویتنام اور تائیوان کے لوگ شامل تھے۔

اسکام کی معیشت کا پھیلاؤ

سرحدی علاقوں اور اسپیشل اکنامک زونز میں ایسے پورے شہر وجود میں آگئے ہیں جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے موجود نہیں یا کمزور ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (UNODC) کے مطابق صرف 2024 میں یہ سینٹرز 40 ارب ڈالر کما چکے ہیں۔ یہ رقم کئی ملکوں کی معیشت کے برابر ہے اور کرپشن کو بھی بڑھا رہی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ صرف آپریٹرز کو نشانہ بنانے کے بجائے ان نیٹ ورکس اور ڈھانچوں کو ختم کرنا زیادہ مؤثر ہوگا جو انہیں سہولت فراہم کرتے ہیں۔ سافوس کمپنی کی الیگزینڈرا روز نے کہا کہ انفراسٹرکچر کو ختم کرنا ان گروہوں کی طاقت کم کرنے کے لیے ضروری ہے۔

خطے سے باہر پھیلاؤ

UNODC نے خبردار کیا ہے کہ یہ گروہ اب دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی پھیل رہے ہیں۔ اگست میں انٹرپول نے افریقہ میں 1200 سے زیادہ سائبر اور مالیاتی مجرموں کو گرفتار کیا جن میں سے کئی جنوب مشرقی ایشیا کے شہری تھے۔ ان آپریشنز میں بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری اسکیمیں بھی شامل تھیں جن سے 300 ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔

UNODC کے نمائندہ بینڈکٹ ہاف مین نے کہا کہ یہ گروہ ایک نیٹ ورک کی طرح ہیں جو ایک جگہ ختم ہونے کے بعد دوسری جگہ منتقل ہوجاتے ہیں۔

عالمی دباؤ میں اضافہ

امریکی پابندیوں کے تحت ان اداروں کے اثاثے امریکہ میں منجمد کر دیے گئے ہیں اور امریکی شہری ان کے ساتھ کاروبار نہیں کرسکتے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ماہرین کے مطابق مزید ملکوں کو بھی ایسی ہی پابندیاں لگانی چاہئیں تاکہ یہ آپریٹرز دوسری جگہ جا کر دوبارہ کام شروع نہ کرسکیں۔

ٹرینڈ مائیکرو کے نائب صدر جان کلے نے کہا کہ اصل ہدف ان آپریٹرز اور ان کمپنیوں کو ہونا چاہیے جو انہیں سہولت فراہم کرتی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ان مراکز میں کام کرنے پر مجبور کیے گئے افراد کی حفاظت بھی ضروری ہے۔

سافوس کی روز نے کہا کہ اکثر توجہ مجرموں کو روکنے پر دی جاتی ہے لیکن اصل متاثرین کو بھلا دیا جاتا ہے۔ ان اسکیموں کی وجہ سے کئی افراد اپنی جمع پونجی، اپنے تحفظ کا احساس اور اپنی عزت تک کھو بیٹھتے ہیں۔

سورس

https://www.darkreading.com/cyber-risk/southeast-asian-scam-centers-financial-sanctions

Related Articles

- Advertisement -spot_img

Latest Articles