تصور کریں کہ ایک صبح آپ اٹھیں اور آپ کے نلکوں سے پانی نہ آئے، بجلی نہ ہو، پنکھے بند، انٹرنیٹ نہیں چل رہا۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی فلم ہو — لیکن یہ حقیقت ہے۔ اور اس کی وجہ ہیں سائبر حملے۔
چلیں، اسے آسانی سے سمجھتے ہیں۔
جب ہیکرز اہم سسٹمز کو نشانہ بناتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟
2015 کے کرسمس پر یوکرین میں ہزاروں لوگ اندھیرے میں بیٹھے تھے۔ کیوں؟ کیونکہ ایک روسی حمایت یافتہ ہیکر گروپ نے بجلی کمپنیوں پر حملہ کیا اور پورے علاقے میں بجلی بند ہو گئی۔
یہ حملے صرف جنگ زدہ علاقوں تک محدود نہیں ہیں:
آئرلینڈ میں ایک علاقے کا پانی دو دن تک بند رہا۔
امریکہ کی ایک واٹر اسٹیشن پر ہیکرز نے قبضہ کر لیا۔
ایران سے تعلق رکھنے والا گروپ "Cyber Av3ngers” نے اسرائیل اور امریکہ کے واٹر سسٹمز کو نشانہ بنایا۔
روسی گروپ Sandworm نے یوکرین میں کئی بار بجلی بند کی۔
یہ عام ہیکنگ نہیں — یہ سائبر جنگ ہے۔
بجلی اور پانی کے نظام کیوں آسان ہدف ہوتے ہیں؟
ان اداروں میں جدید ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے، جیسے:
پانی کے پریشر کو کنٹرول کرنے والے آلات
سمارٹ میٹر
بجلی تقسیم کرنے والے خودکار سسٹمز
یہ ٹیکنالوجی کام کو تیز بناتی ہے، لیکن ان میں سائبر حملوں کے لیے راستے بھی ہوتے ہیں۔ ہیکرز ان سسٹمز کو بند کر سکتے ہیں، کنٹرول کر سکتے ہیں یا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
سپلائی چین کا چھپا ہوا خطرہ
اکثر کمپنیاں اپنے سسٹمز میں دوسری کمپنیوں کا تیار کردہ سافٹ ویئر یا آلات استعمال کرتی ہیں۔ اگر وہ کمپنیاں ہیک ہو جائیں، تو آپ کا سسٹم بھی خطرے میں آ جاتا ہے۔
مثالیں:
امریکی واٹر پلانٹ میں ایک ایسا آلہ ہیک ہوا جو اسرائیلی کمپنی نے بنایا تھا۔
2024 میں Sisense نامی کمپنی پر حملہ ہوا، جس سے اہم ادارے متاثر ہوئے۔
شمالی کوریا نے ایک اصل سافٹ ویئر میں وائرس ڈال کر امریکہ اور یورپ کی توانائی کمپنیوں کو متاثر کیا۔
یہی نہیں، Snowflake جیسی مشہور کمپنی بھی اس قسم کے حملوں کا نشانہ بنی ہے۔
رینسم ویئر: جدید سائبر بم
سائبر حملوں کی ایک خطرناک شکل ہے رینسم ویئر۔ 2025 میں Southern Water (برطانیہ) کو رینسم ویئر حملے کا سامنا کرنا پڑا۔
ہیکرز نے 750 جی بی ڈیٹا چوری کر لیا — اس میں صارفین کی معلومات اور اہم دستاویزات شامل تھیں۔ یہ معلومات ڈارک ویب پر بیچی جا سکتی ہیں یا اگلے حملوں میں استعمال ہو سکتی ہیں۔
نقصان صرف تکنیکی نہیں، حقیقی ہے
یہ حملے صرف کمپیوٹر سسٹم کو نہیں روکتے، بلکہ:
کمپنیوں کو کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔
لوگوں کو پانی یا بجلی نہیں ملتی۔
ہسپتال بند ہو سکتے ہیں، مریض متاثر ہوتے ہیں۔
کاروبار رُک جاتے ہیں کیونکہ بجلی اور پانی کے بغیر کچھ نہیں چلتا۔
Moody’s جیسی ریٹنگ ایجنسیوں نے بھی ان خطرات پر تشویش ظاہر کی ہے۔
حکومتیں کیا کر رہی ہیں؟
یورپی یونین نے NIS2 Directive متعارف کروایا ہے، جس کے مطابق:
اہم اداروں کو اپنی سائبر سیکیورٹی بہتر بنانی ہوگی۔
سپلائی چین کو محفوظ رکھنا ہوگا۔
سیکیورٹی آڈٹ اور پینیٹریشن ٹیسٹ کروانا لازمی ہے۔
کسی بھی حملے کی اطلاع 24 گھنٹوں میں دینا ہوگی۔
عمل نہ کرنے پر 10 ملین یورو یا 2% کاروباری آمدنی کا جرمانہ لگ سکتا ہے۔
حملے کرنے والے کون ہوتے ہیں؟
یہ صرف عام ہیکرز نہیں, بلکہ ریاستی حمایت یافتہ گروپ ہوتے ہیں:
ان کے پاس پیسہ، مہارت، اور مقصد ہوتا ہے۔ ان کا مقصد صرف پیسہ نہیں بلکہ ممالک کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔
ہم اپنی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں؟
اگر آپ کسی واٹر یا انرجی کمپنی سے وابستہ ہیں، تو یہ اقدامات ضروری ہیں:
- شروع سے ہی سافٹ ویئر کو محفوظ بنائیں — آڈٹس اور ٹیسٹنگ ضرور کریں۔
- اپنی سپلائی چین پر نظر رکھیں — تیسرے فریق پر آنکھ بند کر کے بھروسہ نہ کریں۔
- تھریٹ انٹیلیجنس اور سائبر ہنٹنگ سے ہیکرز کو پہلے ہی پہچانیں۔
- ایک ایمرجنسی پلان ضرور بنائیں تاکہ حملے کی صورت میں فوراً ریکور کیا جا سکے۔
آخری بات
بجلی اور پانی کوئی لگژری نہیں — یہ بنیادی ضروریات ہیں۔
اور اب یہ سائبر حملوں کا نشانہ بن چکی ہیں۔
چاہے آپ ایک کمپنی چلا رہے ہوں، ٹیکنالوجی کے ماہر ہوں، یا عام شہری، یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمیں محفوظ، باخبر اور تیار رہنے کی ضرورت ہے۔
محفوظ رہیے، باخبر رہیے، اور سب سے بڑھ کر — مضبوط رہیے۔