ایک چونکا دینے والا سائبر جاسوسی اسکینڈل سامنے آیا ہے جسے تاریخ کے سب سے بڑے کاؤنٹر انٹیلیجنس حملوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ "Salt Typhoon” نامی یہ حملہ چین کی Ministry of State Security (MSS) سے منسلک ہیکنگ گروپ کی جانب سے کیا گیا، جس نے امریکا کے بڑے ٹیلی کام نیٹ ورکس کو بری طرح متاثر کیا۔
📡 کن اداروں کو نشانہ بنایا گیا؟
اس حملے کا ہدف امریکا کے بڑے ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورکس تھے:
-
AT&T
-
Verizon
-
T-Mobile
ان اداروں کے نیٹ ورک سسٹمز، کال اور میسجنگ کے میٹا ڈیٹا، اور حساس ترین معلومات تک رسائی حاصل کی گئی۔
🧠 کیا معلومات چرائی گئیں؟
Salt Typhoon ہیکرز نے درج ذیل اہم معلومات کو نشانہ بنایا:
-
کالز اور ٹیکسٹ میسجز کا میٹا ڈیٹا
-
صارفین کی لوکیشن ہسٹری
-
سیاسی رہنماؤں اور حکومتی اہلکاروں کی سرگرمیوں کی تفصیل
-
وائرٹیپنگ سسٹمز (Lawful Interception Systems) میں براہِ راست رسائی
یہ معلومات جاسوسی اور نگرانی کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں، جو کہ کسی بھی ملک کی خودمختاری کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
🔍 حملے کا طریقہ کار
Salt Typhoon گروپ نے نیٹ ورک ڈیوائسز میں موجود کمزوریوں (vulnerabilities) کا فائدہ اٹھایا۔ ان میں خاص طور پر:
-
روٹرز
-
سوئچز
-
سیکیورٹی فائر والز
انہوں نے ان سسٹمز کو bypass کرتے ہوئے ایسے حصوں تک رسائی حاصل کی جہاں سے قانونی طور پر فون کالز یا میسجز کی نگرانی کی جاتی ہے۔
⚠️ یہ کتنا بڑا خطرہ ہے؟
-
یہ صرف ڈیٹا چوری کا واقعہ نہیں بلکہ ایک قومی سلامتی کا بحران ہے۔
-
امریکا کے کئی اہم سرکاری و سیاسی افراد کی معلومات خطرے میں ہیں۔
-
اس واقعے نے دنیا بھر کے لیے ایک وارننگ جاری کر دی ہے کہ ڈیجیٹل وار کا میدان اب سب سے اہم محاذ ہے۔
🛡️ دنیا کے لیے سبق
یہ حملہ صرف امریکا کے لیے نہیں، بلکہ ہر ملک کے لیے ایک سبق ہے:
✅ کیا ہمارے نیٹ ورک سسٹمز محفوظ ہیں؟
✅ کیا ہمارے ISP اور ٹیلی کام ادارے جدید سیکیورٹی پروٹوکولز استعمال کر رہے ہیں؟
✅ کیا ہم اپنی قومی ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو غیر ملکی حملوں سے بچا سکتے ہیں؟
📢 نتیجہ
"Salt Typhoon” ایک واضح ثبوت ہے کہ جدید دنیا میں جنگیں صرف میدان میں نہیں، بلکہ سائبر اسپیس میں بھی لڑی جا رہی ہیں۔ اگر کسی ملک کا ڈیٹا محفوظ نہیں تو نہ ہی اس کی جمہوریت محفوظ ہے، نہ ہی خودمختاری۔